حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

 

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

تعارف

سید نا زین العابدين (رحمة الله علیہ) نبی کریم (صلَّى اللہُ عَلَيْہِ وَ اَلِہِ وَ سَلَّمَ) کے خاندان کے عظیم فرد، حضرت امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ)کے صاحب زادے ہیں۔ آپ (رحمة الله علیہ) کا نام علی، کنیت ابوالحسن ، لقب زین العابدین ( عبادت گزاروں کی زینت ) اور سید الساجدین ( کثرت سے سجدہ کرنے والا) ہے۔ آپ مدینہ منورہ میں 38 ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ (رحمة الله علیہ) کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ (رحمة الله علیہ) نے دو سال اپنے دادا حضرت سید نا علی المرتضی (کرم اللہ وجہ الکریم )، دس سال اپنے چچا حضرت امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اور تئیس (23) سال اپنے والد حضرت امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی تربیت میں گزارے اور مختلف علوم حاصل کیے۔

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

عبادت و ریاضت

امام زین العابدین (رحمة الله علیہ) کی عبادت اور تقوی میں بڑی شہرت تھی ، اس بنا پر انھیں زین العابدین کہا جاتا ہے۔ آپ (رحمة الله علیہ) کی عبادت وریاضت کا یہ عالم تھا کہ آپ (رحمة الله علیہ) فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کثرت سے نوافل پڑھا کرتے تھے، اسی وجہ سے زین العابد ین مشہور ہوئے ۔ آپ(رحمة الله علیہ) جب نماز کے لیے وضو فر ماتے تو چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور جسم پر لرزا طاری ہو جاتا، پوچھنے والے کو بتاتے کہ تم نہیں جانتے کہ میں اب کس ذات کے سامنے جا کر کھڑا ہونے والا ہوں؟ غربا و مساکین اور دیگر مستحقین کی مدد کرنا آپ (رحمة الله علیہ) اپنا دینی فریضہ سجھتے تھے۔ رات کے اندھیرے میں غربا ومساکین کی ضروریات پوری کرتے اور فرماتے کہ” جو صدقہ رات کے اندھیرے میں دیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے“۔

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

علم و فضل

سیدنا زین العابدین (رحمة الله علیہ) کا علم و فضل سب کے ہاں مسلّمہ ہے۔ علم اور دین کی سند پر آپ(رحمة الله علیہ) کی پرورش ہوئی ، دین میں آپ (رحمة الله علیہ) امام اور علم کا مینار تھے۔ تقوی، عبادات اور خشوع و خضوع میں آپ (رحمة الله علیہ) اپنی مثال آپ تھے حتی کہ آپ (رحمة الله علیہ) کے اپنے دور کے سب سے بڑے متقی اور فقیہ ہونے پر اہل اسلام کا اتفاق ہے۔ آپ (رحمة الله علیہ) کے دور کے بہت بڑے محدث امام زہری (رحمة الله علیہ) آپ (رحمة الله علیہ) کے بارے میں فرماتے ہیں” آپ (رحمة الله علیہ) سے افضل خاندان قریش میں، میں نے کوئی نہیں دیکھا“۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب(رحمة الله علیہ) کا فرمان ہے کہ” سید نا علی بن حسین (رحمة الله علیہ) سے کوئی افضل شخص میں نےکبھی بھی نہیں دیکھا” ۔ امام مالک (رحمة الله علیہ) فرماتے ہیں کہ “خانوادہ رسول میں علی بن حسین (رحمة الله علیہ) جیسا قدر و منزلت والا کوئی نہیں”۔ امام شافعی (رحمة الله علیہ) نے انھیں مدینہ منورہ کا نامور فقیہ قرار دیا ہے۔

یہ اس مبارک دور کی بات ہے جب مدینہ منورہ میں نامور صحابہ کرام (رضی اللہ تعالی عنہم) اور معروف تابعین موجود تھے۔ مدینہ منورہ میں آپ (رحمة الله علیہ) سے قرآن کی تفسیر ، احادیث نبویہ کی روایت اور شریعت کے حلال و حرام کا علم حاصل کرنے والوں میں آپ (رحمة الله علیہ) کے فرزند محمد باقر اور ان کے علاوہ زہری، عمرو بن دینار، ہشام بن عروہ، یحیی بن سعید وغیرہ جیسے اہل علم شامل ہیں۔ ابو سلمہ اور امام طاؤوس وغیرہ نے آپ (رحمة الله علیہ) سے احادیث بھی روایت کیں۔

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

اخلاق وصفات

حضرت امام جعفر صادق (رحمة اللہ علیہ) سے مروی ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ) کی ہمیشہ یہ حالت رہی کہ آپ (رحمة الله علیہ) دن کو روزہ رکھتے اور رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزار دیتے۔ افطار کے وقت جب کھانا اور پانی سامنے آتا تو آپ (رحمة الله علیہ) فرماتے کہ “میرے باپ اور بھائی بھوکے اور پیاسے شہید ہوئے ۔ افسوس یہ کھانا اور پانی ان کونہ ملا” اور رونے لگتے ، یہاں تک کہ بمشکل چند لقمے کھاتے اور چند گھونٹ پانی پیتے ۔

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

واقعہ کربلا میں کردار

سانحہ کر بلا 61 ہجری کے وقت آپ (رحمة الله علیہ) کی عمر 23 سال تھی۔ اس وقت آپ بیمار تھے اور واقعہ کربلا میں بچ جانے والے افرادمیں سے تھے۔ آپ کو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ دمشق میں اموی حکمران یزید کے سامنے لایا گیا ۔ کوفہ و شام میں آپ (رحمة الله علیہ) نے اسلام کی حقانیت اور علم و عمل کے مضوع پر کئی خطبات دیے جو اپنا ایک خاص علمی، ادبی اور روحانی مقام رکھتے ہیں۔ معروف سیرت نگار ابن سعدطبقات” میں لکھتے ہیں کہ مسلسل بیمار رہنے کے باوجود سیدنا علی بن حسین زین العابدین(رحمة الله علیہ) میدان کربلا میں موجود تھے۔۔ 10 محرم کو نماز ظہر پرسید نا حسین بن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)نے ان سے آخری ملاقات کی ، ان کو اپنی انگوٹی سونپی اور خاص نصیحتیں کیں لیکن بیماری کی شدت کی بنا پر وہ لڑائی میں شرکت نہ کر سکے۔

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

تصانیف

امام زین العابدین (رحمہ اللہ علیہ) کی کتب میں “صحیفہ سجادیہ” کے نام سے دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب بہت مشہور ہے، جو اہل تشیع میں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کی معروف کتاب “نہج البلاغہ” کے بعد، دوسری اہم ترین کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ نامور مصری مفسر امام طنطاوی لکھتے ہیں کہ” میں نے جب بھی اس کتاب میں ذکر و مناجات پڑھے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مخلوق کے عام کلام سے بالا خاص جذب و کیف میں کیے گئے اذکار ہیں۔” امام زین العابدین (رحمہ اللہ علیہ) کی ایک اور تصنیف ” رسالۃ الحقوق“ کے نام سے بھی ہے جس میں اللہ تعالی کے حقوق کے علاوہ، انسان کے اپنے اوپر حقوق ، کان، ناک، آنکھ اور زبان وغیرہاور دیگر اعضا کے حقوق ذکر کیے گئے ہیں ۔ اس کتاب میں غیر مسلموں کے حقوق کا تذکرہ بھی موجود ہے۔

حضرت امام زین العابدین (رحمة الله علیہ)

وفات

محرم 95 ھ میں آپ نے 57 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی اور اپنے چچا سید نا حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں جنة البقيع (بقیع غرقد ) مدینہ منورہ میں دفن ہوئے ۔ آپ رحمہ اللہ علیہ کی اولاد میں حضرت امام محمد باقر (رحمة الله عليه) ، حضرت عیسیٰ (رحمة الله عليه)، حضرت زید (رحمة اللہ علیہ) معروف شخصیات ہیں۔

3 COMMENTS

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here